وہ آخری خط جو کبھی نہیں پہنچا


***


** بیٹی کی یادیں**


ساٹھ سالہ فیروزن اپنے کراچی کے اپارٹمنٹ کی بالکونی میں بیٹھی پرانی البم دیکھ رہی تھی۔ اس کی انگلیاں ایک پچاس سالہ پرانے خط پر ٹھہر گئیں جو ابھی تک کھلا نہیں تھا۔ یہ خط اس کے والد نے اسے اس دن لکھا تھا جب وہ 1971 میں ڈھاکہ سے آخری فلائٹ پر سوار ہو رہے تھے۔


** تقسیم کا المیہ**


فیروزن کی آنکھوں کے سامنے وہ دن پھر سے زندہ ہو گیا۔ وہ بارہ سال کی تھی جب اس کے والد نے اسے اور اس کی ماں کو ہوائی اڈے پر الوداع کہا تھا۔ اس کے والد، جناب احمد حسین، ایک سرکاری ملازم تھے اور انہیں ڈھاکہ میں رہ کر اپنی ڈیوٹی جاری رکھنی تھی۔


"فیروزن بیٹا،" انہوں نے کہا تھا، "یہ خط تمہاری شادی کے دن کھولنا۔ اس میں وہ سب کچھ ہے جو میں تمہیں کہنا چاہتا ہوں۔"


** انتظار کی صعوبتیں**


ہفتے مہینوں میں بدلے، مہینے برسوں میں۔ فیروزن اور اس کی ماں کراچی میں رہنے لگیں۔ ہر روز وہ ڈاک باکس چیک کرتیں، ہر خبر سن کر ان کے دل دھڑکتے۔ لیکن جناب احمد حسین سے کوئی خبر نہ آئی۔


فیروزن کی ماں ہر شام چپکے سے روتی رہیں۔ ان کی آنکھیں ہمیشہ دروازے کی طرف لگی رہتیں، شاید کبھی ان کا پیارا واپس آ جائے۔


**زندگی آگے بڑھی**


فیروزن بڑی ہوئی، اس کی شادی ہوئی، اس کے اپنے بچے ہوئے۔ اس کی ماں انتقال کر گئیں، اپنے شوہر کا انتظار کرتے کرتے۔ لیکن وہ خط ابھی تک بند تھا - ایک وعدہ جسے فیروزن پورا نہیں کر پا رہی تھی۔


**سچائی کا انکشاف**


2018 میں، فیروزن کی بیٹی، زینب، نے ایک پراجیکٹ کے لیے خاندانی تاریخ تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ ڈھاکہ گئی، پرانے ریکارڈز دیکھے۔ اسے ایک پرانی فائل ملی جس میں لکھا تھا کہ جناب احمد حسین اس فلائٹ کے کچھ دن بعد ہی انتقال کر گئے تھے جو وہ پکڑنے والے تھے۔


**خط کھلتا ہے**


زینب کے واپس آنے پر، فیروزن نے آخر وہ خط کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے جب اس نے وہ پرانا لفافہ کھولا۔ خط میں لکھا تھا:


*"میری پیاری فیروزن*


*اگر تم یہ خط پڑھ رہی ہو تو سمجھ لو کہ میں تمہارے ساتھ نہیں ہوں۔ لیکن یاد رکھنا، موت ہمیں جدا نہیں کر سکتی۔ میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں - تمہاری ہر خوشی میں، تمہارے ہر غم میں۔*


*تمہاری شادی کے دن میرے الفاظ تمہارے ساتھ ہوں گے: زندگی گزارو محبت سے، ہمیشہ سچ بولو، اور کبھی کسی کو تکلیف مت دو۔*


*تمہاری ماں کو میرا سلام کہنا... اور ہاں، فیروزن... معاف کر دینا مجھے کہ میں تمہاری شادی میں شامل نہ ہو سکا۔*


*ہمیشہ تمہارا،*

*ابو"*


** ایک نیا آغاز**


فیروزن نے خط اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بہہ نکلی، لیکن یہ آنسو صرف غم کے نہیں تھے۔ ان میں ایک عجیب سکون تھا - آخرکار اسے وہ جواب مل گیا تھا جس کا وہ انتظار کر رہی تھی۔


اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے والد کی یادیں زندہ رکھے گی۔ اس نے اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی لائبریری بنائی جہاں اس نے اپنے والد کی تمام یادیں محفوظ کیں۔


***


**سبق** 

*"محبت کی کوئی موت نہیں ہوتی، اور نہ ہی رشتے وقت کی قید میں ہوتے ہیں۔ ہمارے پیارے ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہتے ہیں۔"*


🏷️ Labels (لیبلز)

جذباتی کہانیاں
محبت کے خطوط
ادھورے پیغام
احساسات اور یادیں
غمگین کہانیاں
رومانوی داستانیں
اردو ادب
افسانے اور کہانیاں