جیسی کرنی ویسی بھرنی


شہر کے ایک پرسکون محلے میں جاوید صاحب نام کے شخص رہتے تھے۔ زندگی کے ابتدائی دنوں میں وہ محنتی اور ایماندار تھے، لیکن جیسے جیسے دولت اور شہرت بڑھی، ان کے مزاج میں غرور اور خودغرضی آ گئی۔ ان کا ایک بیٹا احمد اور بیٹی فریحہ تھی۔ بیوی نرم دل اور عبادت گزار عورت تھی جو ہمیشہ کہتی، “جاوید! یہ دنیا فانی ہے، انسان کے اچھے اعمال ہی اس کے ساتھ رہتے ہیں۔” مگر جاوید مسکرا کر کہتا، “دنیا میں عزت اور دولت ہو تو سب کچھ ہے۔”


وقت گزرتا گیا۔ جاوید صاحب کا کاروبار پھلتا پھولتا رہا۔ مگر اس دولت کے ساتھ ان کا دل سخت ہوتا گیا۔ وہ نوکروں کو معمولی غلطی پر گالیاں دیتے، غریبوں کو دروازے سے لوٹا دیتے، اور اپنے بوڑھے والدین کے ساتھ بھی سختی سے پیش آتے۔ والد اکثر خاموشی سے کہہ دیتے، “بیٹا! یاد رکھ، دنیا مکافاتِ عمل ہے، جو کرو گے وہی پاؤ گے۔” مگر جاوید ہنستے ہوئے کہتا، “ابا جی! یہ باتیں کتابوں کی ہیں، حقیقت نہیں۔”


سالوں بعد جاوید کے والدین دنیا سے رخصت ہو گئے۔ کسی نے ان کے جنازے پر آنسو نہیں بہائے سوائے ان کی بوڑھی ماں کی قبر پر اگنے والے گھاس کے۔ جاوید کا دل ذرا بھی نرم نہ ہوا۔


وقت کا پہیہ چلتا گیا۔ احمد بڑا ہو گیا، اعلیٰ تعلیم کے لیے بیرون ملک چلا گیا۔ جاوید کی بیوی بھی مسلسل لاپرواہی اور اکیلے پن سے بیمار رہنے لگی۔ جاوید اب عمر کے اس حصے میں داخل ہو چکا تھا جہاں دوست کم، یادیں زیادہ ہوتی ہیں۔


ایک دن دفتر میں بیٹھے وہ سوچنے لگا کہ بیٹے کو خط لکھے، مگر دل میں غرور تھا — “میں نے تو سب کچھ خود بنایا ہے، کسی کی ضرورت نہیں۔” لیکن جب بیماری نے اسے بستر پر گرا دیا، تو احساس ہوا کہ دولت انسان کا ساتھ نہیں دیتی۔ بیٹا فون پر کہتا، “ابا! آپ اپنا علاج کسی اچھے اسپتال میں کروالیں، میں مصروف ہوں، آ نہیں سکتا۔”

جاوید نے آنکھیں بند کر کے لمبی سانس لی۔ دل میں ایک چبھن اٹھی — “یہی تو میں نے اپنے والد کے ساتھ کیا تھا۔”

اب اسے ماں کے وہ الفاظ یاد آئے، “جاوید، دنیا میں انسان وہی کاٹتا ہے جو بوتا ہے۔”

وقت گزرتا گیا۔ جاوید اب کمزور اور تنہا تھا۔ فریحہ شادی کے بعد اپنے گھر میں مصروف تھی۔ نوکر آتے جاتے اس کی خبر لیتے، مگر دل کا خالی پن بڑھتا گیا۔ ایک دن اس نے قرآن پاک کھولا، تو سورہ الزلزال کی آیت پر نظر پڑی

"فَمَن یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْرًا یَّرَهُ، وَمَن یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا یَّرَهُ"

(جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ دیکھ لے گا، اور جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ بھی دیکھ لے گا۔)

جاوید کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے اللہ سے توبہ کی اور دل میں فیصلہ کیا کہ اپنی بقیہ زندگی لوگوں کی خدمت میں گزارے گا۔ اس نے غریب بچوں کے لیے مدرسہ کھولا، یتیموں کے لیے کپڑے اور کھانا فراہم کیا، اور اپنے نوکروں سے نرمی سے بات کرنا شروع کی۔


چند سالوں بعد جب جاوید کا انتقال ہوا تو پورا محلہ اس کے جنازے میں شریک تھا۔ مسجد کے امام نے کہا، “یہ

 وہ شخص تھا جس نے زندگی کے آخری حصے میں اپنے دل کو بدل لیا۔”


اور یوں جاوید صاحب کی زندگی نے ثابت کر دیا کہ انسان چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو،وقت اسے وہی لوٹاتا ہے جووہ دوسروں کے ساتھ کرتا ہے۔سچ ہی کہتے ہیں — جیسی کرنی ویسی بھرنی


LABLES/لیبلز

جیسی کرنی ویسی بھرنی، سبق آموز کہانی، اخلاقی کہانی، جذباتی اردو کہانی، بڑوں کے لیے کہانی، والدین کا احترام، عبرت انگیز واقعات، زندگی کا سبق، احساس کی کہانی، نیکی کا بدلہ، اخلاقی کہانیاں، سبق آموز کہانیاں، جذباتی اردو ادب، والدین کی خدمت، اسلامی سبق، معاشرتی پیغام، عبرت انگیز واقعات


میٹا تفصیل (Meta Description)

یہ ایک جذباتی اور سبق آموز اردو کہانی ہے “جیسی کرنی ویسی بھرنی” کے عنوان سے، جس میں ایک شخص کی زندگی کے نشیب و فراز کے ذریعے یہ سچائی بیان کی گئی ہے کہ انسان دنیا میں وہی پاتا ہےجو وہ دوسروں کے لیے کرتا ہے۔